ادبی دنیا کا سب سے بڑا اعزاز حاصل سنگلیر لیوس کی کامیابی تک کا سفر

سنگلیر لیوس کی کامیابی تک کا سفر

سنگلیر لیوس پہلی دفعہ 1920ء میں منظر عام پر آیا ۔ اس سے پہلے وہ چھ کتا نہیں لکھ چکا تھا۔ مگر انھوں نے ادبی دنیا میں ہلکا سا بھی ارتعاش پیدا نہ کیا۔ اس کا ساتواں ناول بیڑا بازار تھا۔ اس نے انگریز ممالک کو ایک طوفان کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ عورتوں کے کلبوں نے اس کی مذمت کی۔ پادریوں نے اسے کوسا ۔ اور اخباروںرسالوں نے اس پر کڑی تنقید کی۔ سارے امریکہ میں اس ناول نے ایک ادبی جنگ کا آغاز کر دیا۔ اور تین ہزار میل دور یورپ میں بھی اس کے اثرات نمودار ہونے لگے۔ اس ناول نے اسے صف اول کا ادیب بنا دیا ۔ بعض نقادوں نے کہا ” یہ ناول عجیب ہے لیکن ” بے پر وہ دوبارہ ایسا ناول نہ لکھ سکے ۔ لیکن مینیسو چونا سے آنے والا سرخ بالوں والا یہ لڑ کا جم کر کام کرنے بیٹھ گیا اور اس نے مزید نصف درجن بکری کے لحاظ سے بہترین ناول لکھ مارے ۔ سنکلیر لیوس کے ناولوں کے متعلق یہ الفاظ لکھنا زیادتی ہے۔ وہ تو اپنی کتابوں پر بے حد محنت کرتا اور بار بار ان پر نظر ثانی کرتا تھا۔ اس نے “ایروسمتھ  نامی” اپنے ایک ناول کا خاکہ ساٹھ ہزار الفاظ میں لکھا۔ یعنی ایک متوسط ناول سے زیادہ طویل محض ایک ناول کا ڈھانچہ ۔۔ ایک دفعہ وہ اپنے ناول پر پورے بارہ ماہ کام کرتا رہا۔ لیکن پھر بھی اسے پسند نہ آیا۔ اور اس نے اسے ٹوکری میں ڈال دیا۔

اس نے “بڑا بازار” تین مختلف دفعہ لکھنا شروع کیا۔ اسے مکمل کرنے سے سترہ برس پہلے اس نے وہ لکھنا شروع کیا تھا۔ ایک دفعہ جب  سنکلیر لیوس سے پوچھا  گیا کہ وہ اپنے بارے کوئی حیرت ناک حقیقت بتائے ۔ اس نے لمحہ بھر سوچا اور پھر کہنے لگا اگر میں نے ادبی کام کا آغاز نہ کیا ہوتا ، تو آکسفورڈ یونیورسٹی میں یونانی زبان یا فلسفہ پڑھانے کو ترجیح دیتا ۔ یا پھر جنگلوں وغیرہ میں جا کر شکار کرتا اور وہیں رہتا۔

سال میں وہ چھ ماہ ایونیو، نیو یارک میں رہنا پسند کرتا لیکن باقی چھ ماہ وہ بر النگنس سے جنوب مشرق کی طرف اسی میل دور مونٹ پہاڑوں میں ایک الگ تھلگ جگہ پر گزارتا ۔ وہاں اس کی 1340 ایکڑ زمین تھی ۔ جس پر اس نے  سبزیاں لگا رکھی تھیں ۔ اس نے وہاں پر گنے کا شربت بنانے کا بھی انتظام کیا ہوا تھا۔

وہ قریبی قصبے میں صرف اسی صورت میں جاتا ، جب اسے حجامت بنوانا ہوتی۔ جب   اس سے پوچھا، لیوس تمہیں مشہور ہونا کیسا لگا ہے؟۔ اس نے جواب دیا  “بلکل بکواس” اگر میں اپنے سارے خطوں کا جواب لکھنے بیٹھ جاؤں تو ایک کتاب بھی نہ لکھ پاؤں ۔ اور تو اور رات کی نیند بھی میرے نصیب میں نہ رہے۔ لہذ اوہ اپنے بیشتر خط آتش دان میں جلا دیتا تھا۔ اور انہیں جلتے ہوئے دیکھتا رہتا۔ اسے آٹو گراف دینا پسند نہیں ۔

 

جب  اس سے پوچھا گیا کہ اب تک اس کی ناولوں کی کتنی جلد میں فروخت ہو چکی ہیں ۔ جواب میں اس نے کہا کہ اسے معلوم نہیں ، اس نے کبھی اس بات پر دھیان نہیں دیا تھا۔پھر جب  اس سے پوچھا گیا “بڑا بازار” سے اس نے کتنی رقم کمائی تھی ۔ اس نے جواب دیا کہ حقیقتا اسے یہ بھی معلوم نہ تھا۔ اس قسم کے کاموں سے نمٹنے کے لئےاس نے ایک وکیل اور ایک اکاونٹ رکھا ہوا ہے ۔ یہ سب حساب کتاب وہی جانتےہیں ۔ اسے تو لکھنے سے غرض تھی۔

اسے ہر قسم کا تجربہ تھا۔ مینسو جوتا میں اس کا والد ایک ڈاکٹر تھا۔ سنکلیر لیوس اپنے والد کے ہمراہ کام کیا کرتا تھا۔ اور آپریشن سے پہلے مریض کو کلورہ فارم دیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے بار بر داروالی کشتی میں کام کر کے بحیرہ اوقیانوس کو عبور کیا ۔ ایک زمانے میں وہ بچوں کے لئے نظمیں لکھا کرتا تھا۔ اور امریکی ادیب جیک لندن کے پاس کہانیوں کے پلاٹ فروخت کیا کرتا تھا ۔ وہ گونگوں اور بہروں کے ایک رسالے کا مدیر بھی رہ چکا تھا۔

اس نے زندگی میں ورزش کبھی نہیں کی۔ وہ جارج جین نا تھاں کی اس بات سےمتفق تھا ۔ کہ ایک شہری آدمی کے لئے ٹیکسی کا دروازہ کھول کر اس میں داخل ہونا ہی  خاص ورزش ہے۔ اسے کھیلوں میں کوئی دلچسپی نہیں۔ بیس  بال کے میدان میں اسے صرف بیب رتھ کا نام یاد ہے ۔ اور فٹ بال کے سلسلے میں اس نے ریڈ گر یج کا نام سن رکھا ہے۔

ایک دن اسے کسی شخص نے ٹیلی فون پر اطلاع دی کہ اس برس اسے ادب کے شعبے میں نوبل پرائز ملنے کا فیصلہ ہو چکا ہے ۔ سنکلیر لیوس نے سمجھا کہ اس کا کوئی دوست اسے مذاق کر رہا ہے۔ وہ بھی جواب دینے میں اسے مذاق کرنے لگا۔لیکن چند منٹ بعد جب سنکلیر لیوس کو معلوم ہوا کہ نوبل پرائز کی بات مذاق نہیں ہے ۔ بلکہ حقیقت ہے ، تو وہ بے حد گھبرایا ۔ اسے ادبی دنیا کا سب سے بڑااعزاز حاصل ہو گیا تھا۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *


The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.